محرم

ماہ محرم کی دعا: پہلی محرم الحرام کو جو بھی یہ دعا پڑھے تو شیطان لعین سے محفوظ رہے گا اور سارا سال دو فرشتے اس کی حفاظت پر مقرر ہوں گے۔ دعا یہ ہے۔ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَبَدِیُّ الْقَدِیْمُ وَ ھٰذِہٖ سَنَۃ’‘جَدِیْدَۃ’‘ اَسْءَلُکَ فِیْھَا الْعِصْمَۃَ مِنَ الشَّیْطٰنِ وَ اَوْلِیَاءِ ہٖ وَالْعَوْنَ عَلٰی ھٰذِہِ النَّفْسِ الْاَمَّارَۃَ بِالسُّوْءِ وَالْاِشْتِغَالِ بِمَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ یَا کَرِیْمُ۔ (نزہۃ المجالس) محرم کے نفلی روزے:

1۔ حضرت ابوہرہؓ سے مروی ہے کہ جس نے عاشورہ کے دن چار رکعت نماز اس طرح پڑھی کہ ہر رکعت میں ایک دفعہ سورہ فاتحہ اور پچاس بار سورۂ اخلاص پڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے پچاس برس گذشتہ کے اور پچاس برس آئندہ کے گناہ معاف فرمائے۔ ملاء اعلیٰ میں اس کیلئے نور کے ہزار محل تعمیر کرائے گا۔ ایک اور حدیث میں چار رکعتیں دو سلاموں کے ساتھ مذکور ہیں۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ، سورۂ زلزال، سورۂ کافرون اور سورۂ اخلاص ایک ایک دفعہ اور نماز سے فراغت کے بعد ستر بار دورو شریف پڑھنا مذکور ہے۔ (نزہتہ المجالس ج۱ ص ۱۴۲)

2۔ حضرت شبلی رحمتہ اللہ علیہ ہر روز یکم محرم سے دس محرم تک چار رکعت نفل پڑھا کرتے تھے۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ ایک بار، سورۂ اخلاص پندرہ بار اور بعد سلام کے اس کا ثواب حضرت امام حسین علیہ السلام کی روح مبارک کے حضور پیش کرتے۔ تو ایک دن حضرت شبلی رحمتہ اللہ علیہ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے حضرت شبلیؒ کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ حضرت شبلیؒ نے عرض کی کہ حضور مجھ سے کیا خطا سرزد ہوئی؟ فرمایا: خطا نہیں، ہماری آنکھیں تمہارے احسان سے شرمندہ ہیں۔ جب تک ہم قیامت میں اس کا بدلہ نہ دلوا لیں گے اس وقت تک ہم آنکھ ملانے کے قابل نہیں ہیں۔ اس نماز کے پڑھنے والے کی صاحبزادگان سید کونین علیہما السلام قیامت کے دن شفاعت فرمائیں گے۔ (جواہر غیبی)

3۔ یکم محرم شریف کے دن دو رکعت نماز نفل اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے۔ سلام کے بعد ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے۔ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَبَدُ الْقَدِیْمُ وَ ھٰذِہٖ سَنَۃ’‘جَدِیْدَۃ’‘ اَسْءَلُکَ فِیْھَا الْعِصْمَۃَ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ وَالْاَمَانَ مِنَ السُّلْطَانِ الْجَابِرِ وَ مِنْ شَرٍّ کُلِّ ذِیْ شَرٍّ وَّ مِنَ الْبَلاَ وَالْاٰفَاتِ وَاَسْءَلُکَ الْعَوْنَ وَالْعَدْلَ عَلٰی ھٰذِہِ النَّفْسِ الْاَمَّارَۃِ بِالسُّوْءِ وَالْاِشْتِغَالِ بِمَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ یَابَرُّ یَارَءُ وْفُ یَارَحِیْمُ یَاذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ط۔ جو شخص اس نماز کو پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کے اوپر دو فرشتے مقرر کردیگا تاکہ وہ اس کے کاروبار میں اس کی مدد کریں اور شیطان لعین کہتا ہے کہ افسوس! میں اس شخص سے تمام سال ناامید ہوا۔ (جواہر غیبی)

4۔جو کوئی چھ رکعت ایک ہی سلام سے نفل ادا کرے ہر رکعت میں بعد الحمد شریف کے چھ سورتیں پڑھے۔ والشمس، انا انزلناہ، اذا زلزلت الارض، سورہ اخلاص، سورۂ فلق اور سورہ و الناس بعد نماز سجدہ میں جا کر قل یاایہا الکافرون پڑھے تو اللہ تعالیٰ سے جو حاجت طلب کرے گا پوری ہوگی۔ (رکن دین، کتاب الصلوٰۃ)

5۔ جو کوئی عاشورہ کے روز چار رکعت نماز پڑھے کہ ہر رکعت میں بعد الحمد شریف کے گیارہ مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے۔ سلام کے بعد کثرت سے سُبُّوْح’‘ قُدُّوْس’‘ رَبُّنَا وَ رَبُّ الْمَلآءِکَۃِ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے پچاس برس کے گناہ بخش دیتا ہے اور اس کیلئے ایک نورانی منبر بناتا ہے۔ (فضائل ایام و الشہود)

6۔ عاشورہ کی رات دو رکعت نفل قبر کی روشنی کے واسطے پڑھے جاتے ہیں جن کی ترکیب یہ ہے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین تین دفعہ سورۂ اخلاص پڑھے جو آدمی اس رات یہ نماز پڑھے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت تک اس کی قبر روشن رکھے گا۔ (ماثبت من السنتہ ص۱۴)

7 ۔ ایک اور روایت میں چھ رکعتیں آئی ہیں۔ ان کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دس دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے۔ اس نماز کے پڑھنے والے کو اللہ کریم بہشت میں دو ہزار محل عطا فرمائے گا اور ہر محل میں ہزار دروازے یاقوت کے ہوں گے اور ہر دروازے پر ایک تخت سبز زبرجد کا ہوگا۔ اس تخت پر ایک حور بیٹھی ہوگی اور اس کے علاوہ چھ ہزار بلائیں اس نمازی سے دور کی جاتی ہیں اور چھ ہزار نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہیں۔ (راحۃ القلوب، جواہر غیبی) عاشورہ کا روزہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! ’’رمضان کے بعد دوسرے فضیلت والے روزے ماہ محرم کے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد افضل ترین عبادت رات کے وقت کی نماز ہے۔‘‘ (مسلم شریف ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سوائے یوم عاشورہ کے روزہ کے کسی روزہ کا قصد کرتے نہیں دیکھا اور سوائے رمضان کے کسی پورے مہینے کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ (بخاری شریف ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اکرم ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! اس دن کی تو یہود و نصاریٰ عظمت کرتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر آئندہ سال اللہ نے باقی رکھا تو نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔ (مسلم شریف) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم اس دن کیوں روزہ رکھتے ہو؟ تو انہوں نے کہا یہ تو بہت بڑا دن ہے اس دن اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کیا تھا۔ اس موقع پر حضرت موسی علیہ السلام نے شکر الٰہی کے طور پر روزہ رکھا تھا اس لیے اس دن ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے کے ہم تم سے زیادہ حقدار ہیں۔ لہٰذا آپ ﷺ نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور صحابہؓ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (بخاری شریف ) *۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*