محفل نعت وکلام بسلسلہ شان سید الشہدا، امین فقر مصطفیﷺ فخر اہل بیت، پیکر عزم استقلال حضرت سیدنا امام حسینؓ پاک

  واقعہ کربلا سے ہمیں صبرواستقامت اور حق پر قائم رہنے کا درس ملتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت سیدنا امام حسینؓ پاک کی ولادت پر جب آپؓ کا ماتھا اور گردن چومی تو دعا فرمائی ’’ الٰہی میرے حسین کو صبر اور اجر عطا فرما‘‘
اور یہ آقا ﷺ کی دعا کاہی اثر تھا کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت سیدنا امام حسینؓ پاک کو صبر عظیم عطا فرمایا عزم واستقلال عطا فرمایا۔ 

محفل کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا۔ نعتیہ و عارفانہ کلام کے نذرانے لاثانی نعت وکلام کونسل کی خواتین نے پیش کئے حضرت سیدنا امام حسینؓ پاک کی شان میں خصوصی کلام پیش کئے گئے۔ دوران کلام ہر آنکھ محبت و غم حسینؓ میں اشکبار نظر آئی۔ نواسہ رسولؐ جگر گوشہ بتولؓ کی یاد میں ہر دل تڑپا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ قبلہ سیدی مرشدی صوفی مسعود احمد صدیقی المعروف لاثانی سرکار نے محفل کو اپنی زیارت بابرکات سے نوازا اور خصوصی دعا فرمائی۔
محترمہ ناظرہ مسعود صاحبہ اپنے بیان میں کہا کہ واقعہ کربلا سے ہمیں صبرواستقامت اور حق پر قائم رہنے کا درس ملتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت سیدنا امام حسینؓ پاک کی ولادت پر جب آپؓ کا ماتھا اور گردن چومی تو دعا فرمائی ’’ الٰہی میرے حسین کو صبر اور اجر عطا فرما‘‘
اور یہ آقا ﷺ کی دعا کاہی اثر تھا کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت سیدنا امام حسینؓ پاک کو صبر عظیم عطا فرمایا عزم واستقلال عطا فرمایا۔
آپ نے کہا اہل بیت کے گھرانے کی اگر ہم کوئی مثال ڈھونڈے تو نہ پاسکیں گے۔ کیونکہ اس گھرانے میں سردار جو انان جنت حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ ہیں۔ تمام جنتی عورتوں کی سردار حضرت سیدنا فاطمۃ الزھرہؓ ہیں۔ تمام جنتی مردوں کے سردار حضرت سیدنا علی المرتضیؓ ہیں اور نانا کی تو کیا شان ہے کہ جو کل جہانوں کے سردار حضور آقا ومولا محمد مصطفیﷺ ہیں۔ اس گھرانے کے خون کی کیا اہمیت ہوگی کیا شان ہوگی شاید کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ اس پاک اور بابرکت خون مبارک کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ ایک یہودی کی بیٹی کی کسی بیماری کی وجہ سے بینائی چلی گئی اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئی تو اس یہودی نے اسے تبدیلی آب وہوا اور تفسیر مکان کیلئے شہر سے باہر ایک باغ میں لے آیا اور وہیں سکونت اختیار کرلی۔ ایک دن وہ یہودی کسی کام سے شہر گیا اور رات وہیں گزارنی پڑی دوسرے دن جب آیا تو دیکھا باغ میں ایک صحت مند عورت کو پھرتے دیکھا اس سے پوچھا اے عورت تو کون ہے میں یہاں پر اپنی نابینا اور مفلوج بیٹی کو چھوڑ کر گیا تھا وہ کہاں ہے۔ وہ لڑکی نے باپ کے پاس آکر کہا’’ میں آپ کی بیٹی ہوں جسے آپ بیماری کی حالت میں چھوڑ گئے تھے یہودی نے یہ بات سنی تو خوشی سے بے ہوش ہوگیا ہوش آیا تو اس نے اپنی بیٹی سے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرہ ہے اس لڑکی نے بتایا کہ کل جب آپ شہر چلے گئے تھے تو میں نے ایک گھنے درخت کے نیچے رات بسر کی علی الصبح میں نے ایک پرندے کی زار زار رونے کی آواز سنی میں بھی بیماری سے رونے لگی اور پرندے کی آواز کے درد کو میں محسوس کرکے اس طرف گھسٹتی ہوئی چلی گئی۔ اور سر اوپر اٹھا کر توجہ کی تو میری آنکھ پر خون کا قطرہ گرا اور میری آنکھ روشن ہوگئی میں نے دیکھا خون ایک پرندے کے پروں میں سے گررہا ہے دوسرا قطرہ میرے ہاتھ پر گرا تو میں نے اپنی دوسری آنکھ پر مل لیا پھر میری دوسری آنکھ بھی روشن ہوگئی اور ایک قطرہ گرا تو میں نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں پر مل لیا اور میرے ہاتھ پاؤں بالکل ٹھیک ہوگئے۔ وہ لڑکی یہودی کو اس درخت کے نیچے لے آئی۔ یہودی نے اس پرندے سے کہا:۔ اے ہماپو بال، فرخندہ فال پرندے تیرے پروں پر یہ خون کیا ہے؟ اور اس میں کہاں کی صحبت کا اثر ہے؟ یہودی کی ہدایت کیلئے الہام الہی کے ساتھ پرندہ بولنے لگا اور فصیح زبان سے گویا ہوا۔ کہ کل ہم آب ودانہ کی تلاش میں اڑے اور گرم ہوا سے بچنے کیلئے ایک درخت پر چھپ کر بیٹھ گئے اور کھانے پینے کا ذکر کرنے لگے تو اچانک ہم نے ایک غیبی ندا سنی، اے پرندو! کربلا میں امام حسینؓ آفتاب کی گرمی میں پریشان ہیں اور تم سائے کی پناہ میں آگئے ہو، اہل آسمان وزمین ان کے درد والم میں مشغول ہیں اور تم آب و دانہ کے غم میں گھلے جاتے ہو۔
ہم الہام الہی کے ساتھ کربلا کی طرف روانہ ہوگئے جب وہاں پہنچے تو حضرت سیدنا امام حسین ؓ شہید ہوچکے تھے اور آپؓ کے جسم مبارک سے خون جاری تھا ہم سب روتے روتے ان کے جسم پر گر پڑے اور اپنے پروں کو ان سے ملنے لگے میرے پروں پر بھی وہی خون ہے خون کے یہ قطرے جہاں گرتے ہیں وہاں خیروبرکت ظاہر ہو جاتی ہے اور اسی کی برکت سے تیری بیٹی ٹھیک ہوگئی ہے۔
یہودی نے یہ سب کچھ سنا تو بولا کہ اگر امام حسین ؓ کے نانا جان برحق نہ ہوتے تو ان کے بیٹوں میں یہ برکت نہ پائی جاتی بے شک میری بیٹی بھی خون کے قطروں سے شفاء نہ پاتی بے شک وہ حق ہیں۔
وہ یہودی اس خون کی برکات مقدسہ دیکھ کر اپنے تمام گھر والوں ، متعلقین اور خوشیں و اقارب کے ساتھ مسلمان ہوگیا۔
حضرت سیدنا امام حسین ؓ پاک کی یاد سے سجی اس محفل میں حضرت سیدنا امام حسین ؓ پاک کی شان ، ومقام اور اعلیٰ اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے محترمہ ناظرہ مسعود صاحبہ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا امام حسن ؓ اور حضرت امام حسین ؓ کے مابین کسی بات پر اختلاف رائے ہوگیادونوں طرف سے خاموشی تھی کچھ خفگی کا اظہار تھا توکسی نے حضرت سیدنا امام حسین پاک ؓ سے عرض کی کہ آپ صلح کرلیں کیونکہ آپ چھوٹے بھائی ہیں تو حضرت امام حسین ؓ نے محبت برادر سے بھر پور ہوکر فرمایا کہ میں نے یہ حدیث مبارک سنی ہے کہ جو صلح میں پہل کرے گا وہ جنت میں پہلے جائے گا اور میں چاہتا ہوں کہ وہ چونکہ مجھ سے بڑے ہیں اسلئے جنت میں پہلے وہ جائیں۔
محترمہ ناظرہ صاحبہ نے کہا کہ اولیاء اللہ بزرگان دین کی صحبتیں ہمارے لئے بہت بڑی نعمت ہیں اور ہمیں اللہ تبارک تعالیٰ کا شکر ہر لمحہ ادا کرتے رہنا چاہئے اور استقامت کی دعا کرنی چاہئے۔
محفل کے آخر میں آقا ﷺ پر درود وسلام کے نذرانے پیش کئے گئے محفل میں خصوصی حسینی لنگر کا انتظام کیا گیا۔

محافل