مجرم عدالتی کاروئی سے بری ، جر م سے معافی مل گئی اورعقیدے بھی درست ہوگئے

حدیث شریف میں ہے ! ’’اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی حاجت روائی کیلئے خاص کیا ہوا ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے انکے پاس آتے ہیں اور من چاہی مرادیں پاتے ہیں ‘‘۔جس طرح ظاہری دنیا میں حکومتی عہدیداران ہوتے ہیں اسی طرح باطنی و روحانی دنیا میں بھی اہلِ اللہ کے پاس مختلف مقام و مرتبہ اور اقتدار ہوتا ہے۔ ان کے پاس ان کے عہدوں کی مناسبت سے اختیارات بھی ہوتے ہیں اور وہ ان حدود میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کو استعمال کر تے ہیں اور جہاں چاہیں، جیسے چاہیں تصرف فرماتے ہیں، جب وہ تصرف فرما دیں تو پھر نتائج کے طور پر وہ بات ظاہری دنیا میں بھی ظہورپذیر ہو جاتی ہے۔ فقراء اگر سوچ لیں تو تقدیریں بدل جاتی ہیں ۔اگر انکا ارادہ بدل جائے تو بڑی بڑی حکومتیں خطرہ میں پڑ جاتی ہیں اور بڑی سے بڑی بادشاہت کا بھی یکسر خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر وہاں قلم پھر گیا ( آرڈر جاری ہو گیا ) تو پھر دنیا کا بڑے سے بڑا عہدیدار تو کیا ساری دنیا مل کر بھی اس کے فیصلے کو نہیں بدل سکتی ۔ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے 
جو جذب کے عالم میں نکلے لب مومن سے 
وہی بات حقیقت میں تقدیر الٰہی ہے
ایک مرتبہ مسز سائرہ سراج صاحبہ ( میانچنوں) کیساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا جو ناقابلِ یقین ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابلِ تردید بھی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’’پہلے حضور نبی کریمؐ اور اولیاء کرامؒ سے متعلق ہمارے عقائد درست نہیں تھے اور فیض و کرم کی باتوں پر تو ہم بالکل بھی یقین نہیں رکھتے تھے، بلکہ ایسی باتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ پھر ہمارے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ہمارے ذہنوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور ہمیں یقین ہو گیا کہ آج کے دور میں بھی ایسے ولی اللہ موجود ہیں جنکی نظر کرم کی بدولت ناممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے اور جو اپنی نظرِ کرم کی بدولت آج بھی ایسے محیر العقول کا رنامے سر انجام دے رہے ہیں جو عقل و فہم سے ماورا ہیں۔ ہوا یوں کہ ایک دن میرا بیٹا گھر سے باہر دوستوں کیساتھ گیا ہوا تھا پھر نجانے ان میں کس بات پر جھگڑا ہو ااور بات اس حد تک بڑھی کہ میرے بیٹے نے غصے میں آکر اپنے دوست کو قتل کر دیا۔ بعد میں وہ بہت پچھتایا اور رویا کہ یہ اچانک اسے کیا ہوگیا کیونکہ وہ اسکا بہت گہرا دوست تھا اور اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن اس سے ایسا بھی ہو جائے گا۔ پولیس آئی اوراسے گرفتار کر کے لے گئی۔ اس کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ ہمیں جب اطلاع ملی تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔ ہم بہت پریشان ہوئے کہ یہ ہم پر اچانک یہ کیا افتاد آن پڑی؟ ہم مسلسل دعائیں کر رہے تھے۔ رو رو کر برا حال ہو گیا، سب گھر والے ہی پریشان تھے کہ عمر قید یا پھانسی کی سزا نہ ہو جائے۔ مقتول کے گھر والوں سے صلح کی کوشش کی تو وہ بات بھی سننے کو تیار نہ ہوئے۔ ہر حربہ اور تعلق آزما لیا لیکن کوئی بات بنتی نظر نہیں آرہی تھی۔ اسی پریشانی میں کئی دن گزر گئے۔ سب ہی کہتے تھے کہ اب تو عمر قید یا پھانسی ہی مقدر ہے کیونکہ عموماً اس طرح کے کیس میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم نے بہت کوششیں کیں، بڑی سفارشیں بھی کروائیں لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ کیونکہ جن کا لڑکا قتل ہوا تھا وہ بہت اثر و رسوخ والے لوگ تھے اور ویسے بھی انکاکیس مضبوط تھا اور سارے ثبوت میرے بیٹے کے خلاف ہی تھے۔ جب کسی طرح بات بنتی نظر نہ آئی تو ایک دن اچانک ہمارے ذہن میں حضرت لاثانی سرکار صاحب کا خیال آیا اور ایک ایک کر کے وہ تمام ناقابل یقین واقعات بھی یاد آنے لگے جو ہم نے ان سے متعلق سن رکھے تھے جس میں انہوں نے مشکل وقت میں اپنے مریدین کی دستگیری فرمائی ( یہ الگ بات ہے کہ ہم نے ایسے واقعات پر کبھی یقین نہیں کیا تھا۔اس وقت تو خاموشی سے سن لیتے تھے لیکن بعد میں گھر جا کر مذاق اڑایا کرتے تھے اور یہ کہہ کر سر جھٹک دیا کرتے تھے کہ ہونہہ! بھلا ایسا کیسے ممکن ہے؟ کیا ان باتوں پر کوئی یقین کر سکتا ہے؟) اب ایسے برے وقت میں ہمارے لئے حضرت لاثانی سرکار صاحب کا خیال اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر ابھرا۔ چنانچہ میں بڑی امید لیے عابدہ معراج صاحبہ(امیر حلقہ میاں چنوں) کے پاس آئی اور ان سے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ خدارا ! میرے بیٹے کیلئے بھی اپنے پیر و مرشد لاثانی سرکار صاحب سے دعا کروا دیں۔ انہوں نے کہا! آستانہ عالیہ جا کر لاثانی سرکار صاحب سے دعا کروالو اللہ کرم کرے گا۔ اگلے دن میرے بیٹے کے مقدمہ کی عدالت میں آخری تاریخ تھی اور فیصلہ ہونا تھا۔ دل انجانے خدشات سے پر تھا ۔عجیب خیالات ذہن میں آتے تھے اور میں سوچتی تھی کہ اگر کل میرے بیٹے کو پھانسی کی سزا ہو گئی تو کیا بنے گا ؟ اگلے دن ہم بڑی امید لیکر حضرت لاثانی سرکار صاحب کے آستانہ عالیہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم بس میں سفر کر رہے تھے اور دعائیں مانگ رہے تھے کہ لاثانی سرکار صاحب کے صدقے اللہ میرے بیٹے پر بھی کرم فرما دے۔ اچانک مجھے کچھ غنودگی محسوس ہوئی اور بیٹھے بیٹھے چند لمحوں کیلئے میری آنکھیں بند ہو گئیں، پھر میں نے دیکھا کہ حضرت لاثانی سرکار تشریف لائے اور فرمایا! 
’’ہم تمہارے بیٹے اسلام دین کیلئے دعا کر رہے ہیں ‘‘
اس کے بعد میں نے دیکھا کہ عدالت لگی ہوئی ہے میرے بیٹے کو سزائے موت کا فیصلہ ہو گیا۔ جب جج میرے بیٹے کے کاغذات پر پھانسی کا آرڈ ر کرنے کیلئے دستخط کرنے لگتا ہے تو قلم نہیں چلتا،وہ بار بار کوشش کرتا ہے لیکن قلم ساتھ نہیں دیتا۔ پھر اچانک ہی میرے بیٹے کی زنجیریں ( بیڑیاں ) ٹوٹ جاتی ہیں، اس کے ساتھ ہی میں چونک کر آنکھیں کھول دیتی ہوں۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ میں نے کیا دیکھا؟ کچھ دیر بعد ہم آستانہ عالیہ حضرت لاثانی سرکار صاحب کی خدمت اقدس میں پہنچ گئے، ہماری خوش قسمتی کہ جاتے ہی آپ کی زیارت ہو گئی اور دعا کرانے کا موقع مل گیا۔ تقریباً دوپہر شروع ہو چکی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب میرے بیٹے کا فیصلہ ہونا تھا۔ ہم نے لاثانی سرکار صاحب کی خدمت میں سارا مسئلہ عرض کیا اور خصوصی دعا کی درخواست کی۔ میں رو رہی تھی، آ پ نے ایک لمحہ کیلئے آنکھیں بند کر کے بڑے جذ ب کیساتھ دعا کی اور فرمایا’’یا اللہ ! صلح کر دے اور ان کے بیٹے کو بری کر دے ‘‘(تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے ) پھر مجھے تسلی دی اور فرمایا ! ’’فکر نہ کریں انشاء اللہ سزائے موت نہیں ہو گی مجھے آپکی بات سے بہت حوصلہ ملا اور ہم گھر واپسی کیلئے روانہ ہو گئے۔ سارے راستے سوچتی رہی اور منصوبے بناتی رہی کہ گھر والوں کو بھی جا کر بتاؤں گی کہ سرکار جی نے واضح تسلی دے دی ہے، اب میرا بیٹا ضرور بری ہو جائے گا۔ لیکن جب گھر پہنچتی ہوں تو یہ دیکھ کرحیران رہ گئی کہ میرا بیٹا مجھ سے پہلے گھر میں موجود تھا۔ اس کو یوں اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر خوشی سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے کہا !’’واہ لاثانی سرکار!بے شک آپ کا فیض بھی لاثانی ہے ‘‘پھر میں نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ یہ کرامت کیسے ہوئی؟ تو اس نے بتایا کہ جب عدالت میں مقدمہ کی کاروائی کا آغاز ہوا اور جب جج سزائے موت کے آرڈر جاری کرنے کیلئے کاغذات پر دستخط کرنے لگا تو پنسل نہیں چلی۔ پھر اس نے دوسری پنسل لیکر لکھنا چاہا تو پھر بھی کچھ نہیں لکھا گیا۔ اسی طرح اس نے یکے بعد دیگرے تین پنسلیں بدلیں لیکن قلم کو تو جیسے کچھ نہ لکھنے کا حکم ہو چکا تھا۔ جج نے غصہ میں آکر پنسل پھینک دی۔ اس کے ساتھ ہی مخالفین کے دل بھی اچانک بدل گئے اور انہوں نے جج سے کہا !’’جج صاحب! ہم صلح کرنا چاہتے ہیں اور اپنے بیٹے کا خون معاف کرتے ہیں ‘‘انکی اس بات پر سب حیران رہ گئے۔ اس وقت عدالت کا منظر قابلِ دید تھا، جج نے حکم دیا کہ ہتھکڑیاں کھول دی جائیں۔ میں جیسے ہی آزاد ہوا تو اپنے دوست (مرحوم) کے گھر والوں کے قدموں میں گر گیا اور اپنی غلطی کی رو رو کر معافی مانگی۔ انہوں نے بھی مجھے اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا۔یوں میں سزائے موت سے بچ گیا اور ہم خوشی خوشی گھر آ گئے۔ گھر آکر دو نفل شکرانے کے ادا کیئے اور آپ کے متعلق پوچھا تو پتہ چلا کہ آپ تو حضرت لاثانی سرکار صاحب سے دعا کروانے گئی ہو ئی ہیں۔اپنے بیٹے سے یہ ساری بات سنی تو میں حیران رہ گئی۔ کم و بیش ایسا ہی میں نے مشاہدہ میں دیکھا تھا۔ پھر میں نے فیصلہ کا وقت پوچھا تو بیٹے نے بالکل وہی وقت بتایا جب لاثانی سرکار صاحب نے ادھر دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تھے۔ پھر میں نے انہیں اپنا بس میں ہونے والا مشاہدہ اور حضرت لاثانی سرکار صاحب کی دعا کے متعلق بتایا تو سب گھر والے بھی بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے! ’’بے شک یہ لاثانی سرکار صاحب کی دعا کے طفیل ہی ممکن ہوا ہے۔اب ہم سب کو یقین بھی ہو گیا کہ آج کے دور میں بھی اللہ کے ایسے ولی موجود ہیں جو تقدیریں بدل دیتے ہیں۔‘‘ 

زندگی بڑھا دینا/زندگی لیکر دینا  ناقابل حل مسائل